اے عثمان! ظالموں نے پانی بند کرکے تمہیں پیاس بے قرار کردیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں! تو فوراً ہی آپ ﷺ نے دریچی میں سے ایک ڈول میری طرف لٹکا دیا جو نہایت شیریں اور ٹھنڈے پانی سے بھرا ہوا تھا میں اس کو پی کر سیراب ہوگیا
دوغیبی شیر: روایت ہے کہ بادشاہ روم کا بھیجا ہوا ایک عجمی کافر مدینہ منورہ آیا اور لوگوں سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا پتہ پوچھا۔ لوگوں نے بتادیا کہ وہ دوپہر کو کھجور کے باغوں میں شہر سے کچھ دور قیلولہ فرماتے ہوئے تم کو ملیں گے۔ یہ زخمی کافر ڈھونڈتے ڈھونڈتے آپ کے پاس پہنچ گیا اور یہ دیکھا کہ آپ اپنا چمڑے کا درہ اپنے سر کے نیچے رکھ کر زمین پر گہری نیند سورہے ہیں۔ عجمی کافر اس ارادے سے تلوار کو نیام سے نکال کر آگے بڑھا کہ امیرالمومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو قتل کرکے بھاگ جائے مگر وہ جیسے ہی آگے بڑھا بالکل ہی اچانک اس نے یہ دیکھا کہ دو شیر منہ پھاڑے ہوئے اس پر حملہ کرنے والے ہیں‘ یہ خوفناک منظر دیکھ کر وہ خوف و دہشت سے بلبلا کر چیخ پڑا اور اس کی چیخ کی آواز سے امیرالمومنین بیدار ہوگئے اور یہ دیکھا کہ عجمی کافر کی ننگی تلوار ہاتھ میں لئے ہوئے تھر تھر کانپ رہا ہے۔ آپ نے اس کی چیخ اور دہشت کا سبب دریافت فرمایا تو اس نے سچ سچ سارا واقعہ بیان کردیا اور پھر بلند آواز سے کلمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوگیا اور امیرالمومنین نے اس کے ساتھ نہایت مشفقانہ برتاؤ فرما کر اس کے قصور کو معاف کردیا۔ (ازالۃ الخفاء مقصد 2 ص172 و تفسیر کبیر ج5 ص 478)
خواب میں پانی پی کرسیراب: حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ جن دنوں باغیوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے مکان کا محاصرہ کرلیا اور ان کے مبارک گھر میں پانی کی ایک بوند تک کا جانا بند کردیا تھا اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ پیاس کی شدت سے تڑپتے رہتے تھے۔ میں آپ کی ملاقات کیلئے حاضر ہوا تو آپ اس دن روزہ دار تھے۔ مجھ کو دیکھ کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا کہ اے عبداللہ بن سلام! آج میں حضور نبی اکرم ﷺ کے دیدار پرانوار سے خواب میں مشرف ہوا تو آپﷺ نے انتہائی مشفقانہ لہجے میں ارشاد فرمایا کہ اے عثمان! ظالموں نے پانی بند کرکے تمہیں پیاس بے قرار کردیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں! تو فوراً ہی آپ ﷺ نے دریچی میں سے ایک ڈول میری طرف لٹکا دیا جو نہایت شیریں اور ٹھنڈے پانی سے بھرا ہوا تھا میں اس کو پی کر سیراب ہوگیا اور اب اس وقت بیداری کے حالت میں بھی اس پانی کی ٹھنڈک میں اپنی دونوں چھاتیوں اور دونوں کندھوں کے درمیان محسوس کرتا ہوں۔ پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ اے عثمان! اگر تمہاری خواہش ہو تو ان باغیوں کے مقابلہ میں تمہاری امداد و نصرت کروں اور اگر تم چاہو تو ہمارے پاس آکر روزہ افطار کرو۔ اے عبداللہ بن سلام! میں نے خوش ہوکر یہ عرض کردیا کہ یارسول اللہﷺ! آپ ﷺ کے دربار پرانوار میں حاضر ہوکر روزہ افطار کرنا یہ زندگی سے ہزاروں لاکھوں درجے زیادہ مجھے عزیز ہے۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ میں اس کے بعد رخصت ہوکر چلا آیا اور اسی رات میں بدبخت باغیوں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو شہید کردیا۔ (البدایہ والنہایہ ج 7 ص 182)
فالج زدہ اچھا ہوگیا: علامہ تاج الدین سبکی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب (طبقات) میں ذکر فرمایا ہے کہ ایک مرتبہ امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اپنے دونوں شاہزادگان حضرت امام حسن و امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ساتھ حرم کعبہ میں حاضر تھے کہ درمیانی رات میں ناگہاں یہ سنا کہ ایک شخص بہت ہی گڑگڑا کر اپنی حاجت کیلئے دعا مانگ رہا ہے اور زار زار رو رہا ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے حکم دیا کہ اس شخص کو میرے پاس لاؤ۔ وہ شخص اس حال میں حاضر خدمت ہوا کہ اس کے بدن کی ایک کروٹ فالج زدہ تھی اور وہ زمین پر گھسیٹتا ہوا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے سامنے آیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اس کا قصہ دریافت فرمایا تو اس نے عرض کیا کہ اے امیرالمومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ! میں بہت ہی بے باکی کے ساتھ قسم قسم کے گناہوں میں دن رات منہمک رہتا تھا اور میرا باپ جو بہت ہی صالح اور پابند شریعت مسلمان تھا‘ بار بار مجھ کو ٹوکتا اور گناہوں سے منع کرتا تھا میں نے ایک دن اپنے باپ کی نصیحت سے ناراض ہوکر اس کو مار دیا اور میری مار کھا کر میرا باپ رنج وغم میں ڈوبا ہوا حرم کعبہ آیا اور میرے لیے بددعا کرنے لگا۔ ابھی اس کی دعا ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ بالکل ہی اچانک میری ایک کروٹ پر فالج کا اثر ہوگیا اور میں زمین پر گھسٹ کر چلنے لگا۔ اس غیبی سزا سے مجھے بڑی عبرت حاصل ہوئی اور میں نے رو رو کر اپنے باپ سے اپنے جرم کی معافی طلب کی اور میرے باپ نے اپنی شفقت پدری سے مجبور ہوکر مجھ پر رحم کھایا اور مجھے معاف کردیا اور کہا کہ بیٹا چل! جہاں میں نے تیرے لیے بددعا کی تھی اسی جگہ اب میں تیرے لیے صحت و سلامتی کی دعا مانگوں گا۔ چنانچہ میں اپنے باپ کو اونٹنی پر سوار کرکے مکہ مکرمہ لارہا تھا کہ راستے میں بالکل ناگہاں اونٹنی ایک مقام پر بدک کر بھاگنے لگی اور میرا باپ اس کی پیٹھ پر سے گر کر دو چٹانوں کے درمیان ہلاک ہوگیا اور اب میں اکیلا ہی حرم کعبہ میں آکر دن رات رو رو کر اللہ تعالیٰ سے اپنی تندرستی کیلئے دعائیں مانگتا رہتا ہوں۔ امیرالمومنین نے ساری سرگزشت سن کر فرمایا کہ اے شخص اگر واقعی تیرا باپ تجھ سے خوش ہوگیا تھا تو اطمینان رکھ کہ خداکریم بھی تجھ سے خوش ہوگیا ہے۔ اس نے کہا کہ اے امیرالمومنین! میں بحلف شرعی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرا باپ مجھ سے خوش ہوگیا تھا۔ امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اس شخص کی حالت زار پر رحم کھا کر اس کو تسلی دی اور چند رکعت نماز پڑھ کر اس کی تندرستی کیلئے دعا مانگی۔ پھر فرمایا: اے شخص اٹھ کھڑا ہوجا یہ سنتے ہی وہ بلاتکلف اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور چلنے لگا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا کہ اے شخص! اگر تو نے قسم کھا کر یہ نہ کہا ہوتا کہ تیراباپ تجھ سے خوش ہوگیا تھا تو میں ہرگز تیرے لیے دعا نہ کرتا۔ (حجۃ اللہ علی العالمین ج2 ص863۔ کرامات صحابہ ص79)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں